EN हिंदी
ایک آسیب کا سایہ تھا جو سر سے اترا | شیح شیری
ek aaseb ka saya tha jo sar se utra

غزل

ایک آسیب کا سایہ تھا جو سر سے اترا

شوکت کاظمی

;

ایک آسیب کا سایہ تھا جو سر سے اترا
جیسے اک طائر منحوس شجر سے اترا

یوں لگا جیسے گرانباریٔ شب ختم ہوئی
غازۂ کذب و ریا روئے سحر سے اترا

اپنا گھر بھی مجھے زنداں کی طرح لگتا تھا
زنگ آلود سا تالا مرے در سے اترا

شاید اب تلخ حقائق سے شناسائی ہو
کور چشمی کا یہ پردہ سا نظر سے اترا

غم کا اظہار نہیں اشک ندامت جانو
قطرۂ آب اگر دیدۂ تر سے اترا

رہرو دشت بلا رنج سفر بھولے گا
تخت بلقیس اگر گرد سفر سے اترا

اب شفق رنگ اجالوں کا سماں دیکھیں گے
حلقۂ ابر سیہ شمس و قمر سے اترا