احتیاطاً اسے چھوا نہیں ہے
آدمی ہے کوئی خدا نہیں ہے
دشت میں آتے جاتے رہتے ہیں
یہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے
تم سمجھتے ہو ناخدا خود کو
تم پہ دریا ابھی کھلا نہیں ہے
جس کا حل سوچنے میں وقت لگے
وہ محبت ہے مسئلہ نہیں ہے
باغ پر شعر کہنے والوں کا
ایک مصرع ہرا بھرا نہیں ہے
ریت ہی ریت ہے تہہ دریا
یعنی صحرا ابھی مرا نہیں ہے
آؤ چلتے ہیں اب خلا کی طرف
سن رہے ہیں وہاں خلا نہیں ہے
غزل
احتیاطاً اسے چھوا نہیں ہے
عمران عامی