EN हिंदी
احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا | شیح شیری
ehsas ki diwar gira di hai chala ja

غزل

احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا

شوزیب کاشر

;

احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا
جانے کے لیے یار جگہ دی ہے چلا جا

اے قیس نما شخص یہاں کچھ نہیں تیرا
تجھ نام کی صحرا میں منادی ہے چلا جا

دنیا تو چلو غیر تھی شکوہ نہیں اس سے
تو نے بھی تو اوقات دکھا دی ہے چلا جا

تا کوئی بہانہ ترے پیروں سے نہ لپٹے
دیوار سے تصویر ہٹا دی ہے چلا جا

یک طرفہ محبت کا خسارا ہے مقدر
تجھ خواب کی تعبیر بتا دی ہے چلا جا

ہم ایسے فقیروں میں نہیں مادہ پرستی
تیرا تو میاں شعر بھی مادی ہے چلا جا

ہے کون رکاوٹ جو تجھے روک رہی ہے
میں نے تو مری ذات بھی ڈھا دی ہے چلا جا

اس شہر کے لوگوں میں نہیں قوت برداشت
یہ شہر تو سارا ہی فسادی ہے چلا جا

دستک کے لیے اٹھا ہوا ہاتھ نہ گرتا
خاموشی نے تعزیر سنا دی ہے چلا جا

کچھ جونؔ قبیلے سے نہیں تیرا تعلق
ہر لڑکی یہاں فارہہ زادی ہے چلا جا

جانا تری فطرت ہے بلانا مری قسمت
تو آ کے چلے جانے کا عادی ہے چلا جا

لگتا ہے تو کابل میں نیا آیا ہے پیارے
افغان کا بچہ بھی جہادی ہے چلا جا

اے موم بدن تیرا گزارا نہیں ممکن
یہ آگ میں جلتی ہوئی وادی ہے چلا جا

افسوس بہت دیر سے آیا ہے تو کاشرؔ
اس پانچ مئی کو مری شادی ہے چلا جا