احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا
میں شہر جاں کو راکھ بنا دینے آؤں گا
لکھے تھے حرف شوق جو میں نے ترے لیے
اب آنسوؤں سے ان کو مٹا دینے آؤں گا
تو نے عطا کیے ہیں مجھے کتنے درد و غم
اس لطف خاص کا میں صلہ دینے آؤں گا
سمجھا دیا ہے تو نے محبت ہے اک خطا
میں اس خطا کی خود کو سزا دینے آؤں گا
آیا تری گلی میں اگر لوٹ کر کبھی
گزرے ہوئے دنوں کو صدا دینے آؤں گا
پایا تھا راہ شوق میں جو کرب آگہی
اس کرب آگہی کو سلا دینے آؤں گا
باہر نکل کے جسم کے زنداں سے ایک دن
میں تجھ کو زندگی کی دعا دینے آؤں گا
میں کشتۂ وفا سہی ناصرؔ مگر ضرور
اک بے وفا کو داد وفا دینے آؤں گا
غزل
احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا
ناصر زیدی