احساس خوشی مٹ جاتا ہے افسردہ طبیعت ہوتی ہے
دل پر وہ گھڑی بھی آتی ہے جب غم کی ضرورت ہوتی ہے
دو حرف بھی میرے سن نہ سکے تم اتنے کیوں بیزار ہوئے
میں نے تمہیں اپنا سمجھا تھا اپنوں سے شکایت ہوتی ہے
یہ سود و زیاں کے پیمانے یہ جھوٹے سچے افسانے
ان اہل ہوس کی باتوں سے بدنام محبت ہوتی ہے
اک دوسری بوتل آنے تک یہ درد تہہ ساغر ہی سہی
اور تشنۂ مے بیتاب نہ ہو ساقی کو ندامت ہوتی ہے
ماہرؔ کی سادہ باتوں سے اللہ بچاتا ہے رکھے
خود تو یہ بڑے ہی حضرت ہیں اوروں کو نصیحت ہوتی ہے
غزل
احساس خوشی مٹ جاتا ہے افسردہ طبیعت ہوتی ہے
ماہر القادری