احساس حسن بن کے نظر میں سما گئے
گو لاکھ دور تھے وہ مگر پاس آ گئے
اک روشنی سی دل میں تھی وہ بھی نہیں رہی
وہ کیا گئے چراغ تمنا بجھا گئے
دیر و حرم ہے اور تو حاصل نہ کچھ ہوا
سجدے غرور عشق کی قیمت گھٹا گئے
تنہا روی میں یوں تو مصیبت تھی ہر قدم
ہم اہل کارواں سے تو پیچھا چھڑا گئے
کتنا فریب کار ہے احساس بندگی
ہم منزل خودی سے بہت دور آ گئے
الفت میں فکر زیست ندامت کی بات تھی
اچھے رہے جو جان کی بازی لگا گئے
جو حال ان کا تھا وہ ہمیں جانتے ہیں عرشؔ
یوں وہ ہماری بات ہنسی میں اڑا گئے
غزل
احساس حسن بن کے نظر میں سما گئے
عرش ملسیانی