دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ہجر کے دوراہے پر ایک پل نہ ٹھہرا وہ
راستے بدلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
آنکھ سے نہ ہٹنا تم آنکھ کے جھپکنے تک
آنکھ کے جھپکنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے
بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
خشک بھی نہ ہو پائی روشنائی حرفوں کی
جان من مکرنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
فرد کی نہیں ہے یہ بات ہے قبیلے کی
گر کے پھر سنبھلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
درد کی کہانی کو عشق کے فسانے کو
داستان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
دستکیں بھی دینے پر در اگر نہ کھلتا ہو
سیڑھیاں اترنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
خواہشیں پرندوں سے لاکھ ملتی جلتی ہوں
دوست پر نکلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
عمر بھر کی مہلت تو وقت ہے تعارف کا
زندگی سمجھنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنگ یوں تو ہوتے ہیں بادلوں کے اندر ہی
پر دھنک کے بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ان کی اور پھولوں کی ایک سی ردائیں ہیں
تتلیاں پکڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
زلزلے کی صورت میں عشق وار کرتا ہے
سوچنے سمجھنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
بھیڑ وقت لیتی ہے رہنما پرکھنے میں
کاروان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ہو چمن کے پھولوں کا یا کسی پری وش کا
حسن کے سنورنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
مستقل نہیں امجدؔ یہ دھواں مقدر کا
لکڑیاں سلگنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
غزل
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
امجد اسلام امجد