EN हिंदी
دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی | شیح شیری
duri mein kyun ki ho na tamanna huzur ki

غزل

دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی

غلام مولیٰ قلق

;

دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
منزل کو میری قرب سے نسبت ہے دور کی

فرقت نے اس کی وصل کی تشویش دور کی
تسکیں نہیں ہے یوں بھی دل ناصبور کی

موسیٰ کے سر پہ پاؤں ہے اہل نگاہ کا
اس کی گلی میں خاک اڑی کوہ طور کی

کہتا ہے انجمن کو تری خلد مدعی
اس بوالہوس کے دل میں تمنا ہے حور کی

واعظ نے میکدے کو جو دیکھا تو جل گیا
پھیلا گیا چراند شراب طہور کی

موسیٰ کو کیوں نہ موج تجلی دھکیل دے
جلوے سے اس کے گل ہوئی مشعل شعور کی

ارباب وقت جانتے ہیں روزگار نے
کی سہو سے وفا تو تلافی ضرور کی

رسوائیوں کا حوصلہ گھٹ گھٹ کے بڑھ گیا
ساماں ہے خامشی مری شور نشور کی

میل آسماں کا سوئے زمیں بے سبب نہیں
زیر قدم جگہ ہے سر پر غرور کی

اس سے نہ ملیے جس سے ملے دل تمام عمر
سوجھی ہمیں بھی ہجر میں آخر کو دور کی

پامال کر رہا ہے سیہ روزیوں کا جوش
مٹی خراب ہے مرے کلبے میں نور کی

کیا ایک قرب غیر کا صدمہ نہ پوچھیے
ہیں دل کے آس پاس بلا دور دور کی

مضموں مرے اڑائے قلقؔ سب نے اس قدر
سنتا ہوں میں ترانہ زبانی طیور کی