EN हिंदी
دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا | شیح شیری
dur the hosh-o-hawas apne se bhi begana tha

غزل

دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا

آرزو لکھنوی

;

دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا
ان کو بزم ناز تھی اور مجھ کو خلوت خانہ تھا

کھینچ لایا تھا یہ کس عالم سے کس عالم میں ہوش
اپنا حال اپنے لیے جیسے کوئی افسانہ تھا

چھوٹے چھوٹے دو ورق جل جل کے دفتر بن گئے
درس حسرت دے رہا تھا جو پر پروانہ تھا

جان کر وارفتہ ان کے چھیڑنے کی دیر تھی
پھر تو دل اک ہوش میں آیا ہوا دیوانہ تھا

ضوفشاں ہونے لگا جب دل میں حسن خود نما
پھر تو کعبہ آرزوؔ کعبہ نہ تھا بت خانہ تھا