EN हिंदी
دور تک راہ میں کانٹے ہیں بہت | شیح شیری
dur tak rah mein kanTe hain bahut

غزل

دور تک راہ میں کانٹے ہیں بہت

محمد علی موج

;

دور تک راہ میں کانٹے ہیں بہت
میرے بھی چاہنے والے ہیں بہت

گھر سے نکلو نہ بدل کر چہرے
شہر میں آئینہ خانے ہیں بہت

کیا چھپیں خوشبوئیں رسوائی کی
پیار کے پھول مہکتے ہیں بہت

اور کچھ بھی نہیں اپنے بس میں
یاد کر کے تجھے روتے ہیں بہت

تو بھی تنہا ہے بچھڑ کر ہم سے
ہم بھی اے دوست اکیلے ہیں بہت

اک تجھی سے ہے سروکار ہمیں
یوں تو اللہ کے بندے ہیں بہت

موجؔ اظہار محبت کے لیے
آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہیں بہت