دور تک چاروں طرف میرے سوا کوئی نہ تھا
پھر پلک جھپکی تو کیا دیکھا کہ خود میں بھی نہ تھا
اک تڑپ بجلی کی اور دیوار و در مٹی کے ڈھیر
اک تڑپ شعلے کی اور دریاؤں میں پانی نہ تھا
دائرے بنتی صدائیں چھو کے جب حد افق
اپنے مرکز کی طرف لوٹیں تو کچھ باقی نہ تھا
قید زندان جسد میں تھا یہ کب کشف وجود
اور بھی کچھ تھا میں صرف اک پیکر خاکی نہ تھا
کیا خبر تم نے کہاں کس روپ میں دیکھا مجھے
میں کہیں موتی کہیں پتھر کہیں آئینہ تھا
دیں حساب روز و شب کیا اس کو جس کے درد سے
کوئی ساعت کوئی لمحہ کوئی پل خالی نہ تھا
آرزو لعل و گہر کی کس لئے کرتا بشیرؔ
حرف و معنی کا خزینہ کیا اسے کافی نہ تھا
غزل
دور تک چاروں طرف میرے سوا کوئی نہ تھا
بشیر احمد بشیر