دور تک بس خون کے ٹھہرے ہوئے دریا ملے
مدتوں جاگی ہوئی آنکھوں کو دیکھا رو پڑے
احتراماً زندگی کو منہ لگانا ہی پڑا
ورنہ ہم اور زندگی کا زہر توبہ کیجیے
اپنے کاندھوں پر لیے اپنی کئی شخصیتیں
رات بھر آنکھوں کے جنگل میں بھٹکتے ہی رہے
چیختے چلاتے اندیشوں کی آنکھیں سرخ ہیں
جسم کی نا پختہ سڑکوں سے گزرنا چھوڑیئے
خون کے دھبوں کی سچائی ڈراتی ہی رہی
اپنے بارے میں کبھی سوچا تو گھبرانے لگے
ٹوٹے پھوٹے کالے شبدوں کے بھرے بازار میں
اس قدر خود کو گھمایا ہے کہ کالے پڑ گئے

غزل
دور تک بس خون کے ٹھہرے ہوئے دریا ملے
انتخاب سید