EN हिंदी
دور سے کیا مسکرا کر دیکھنا | شیح شیری
dur se kya muskura kar dekhna

غزل

دور سے کیا مسکرا کر دیکھنا

آغاز برنی

;

دور سے کیا مسکرا کر دیکھنا
دل کا عالم دل میں آ کر دیکھنا

خود کو گر پہچاننا چاہو کبھی
مجھ کو آئینہ بنا کر دیکھنا

قد کا اندازہ تمہیں ہو جائے گا
اپنے سائے کو گھٹا کر دیکھنا

میں اندھیرے اوڑھ کر سو جاؤں گا
تم اجالوں میں سما کر دیکھنا

شام کا منظر حسیں ہو جائے گا
ہاتھ پہ مہندی لگا کر دیکھنا

ہو چلا زخم تمنا مندمل
اک ذرا پھر مسکرا کر دیکھنا

کس قدر آغازؔ ابلتا ہے سکوں
تم ذرا آنسو بہا کر دیکھنا