دور سے باغ جہاں دکھلا کے دیوانہ کیا
متصل جانے نہ پایا میں کہ ویرانہ کیا
دیکھتے ہی مے کو ساغر کا نہ کھینچا انتظار
مارے جلدی کے میں اپنا ہاتھ پیمانہ کیا
طرفہ تر یہ ہے کہ اپنا بھی نہ جانا اور یوں ہی
اپنا اپنا کہہ کے مجھ کو سب سے بیگانہ کیا
کچھ بہک کر بات گر بولوں تو ہوں معذور میں
مجھ کو ہستی نے تری آنکھوں کی مستانہ کیا
بے وفائی نے یہ کس کی تجھ کو سمجھایا حسنؔ
ان دنوں کیوں تو نے کم اس طرف جانا کیا
غزل
دور سے باغ جہاں دکھلا کے دیوانہ کیا
میر حسن