دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے
دل مرا عرش ہے اور اس پہ خدا بیٹھا ہے
بت کدہ میں ترے جلوے نے تراشے پتھر
جس نے دیکھا یہی جانا کہ خدا بیٹھا ہے
کیا ہوئے آنکھ کے پردے جو پڑے تھے اب تک
برملا حشر میں کیوں آج خدا بیٹھا ہے
نقش وحدت ہی سویدا کو کہا کرتے ہیں
دل میں اک تل ہے اور اس تل میں خدا بیٹھا ہے
میں جو کہتا ہوں کہ کعبے کو نہ برباد کرو
ہنس کے بت کہتے ہیں کیا دل میں خدا بیٹھا ہے
آسماں میں تری گردش سے نہیں ڈرتا ہوں
تجھ کو کس بات کا غم سر پہ خدا بیٹھا ہے
چشم وحدت سے جو انسان ذرا غور کرے
جس کو دیکھے یہی سمجھے کہ خدا بیٹھا ہے
اپنے مرنے کا ذرا غم نہ کرو تم مضطرؔ
یوں سمجھ لو کہ جلانے کو خدا بیٹھا ہے
غزل
دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے
مضطر خیرآبادی