دور کچھ اہل جنوں کی بے قراری کیجیے
ہو سکے تو ان کی تھوڑی غم گساری کیجیے
جن کے بستر سے نہیں جاتی کوئی سلوٹ کبھی
ان کی آنکھوں میں وفا کے خواب جاری کیجیے
عشق کی قسمت یہی ہے عشق کا منصب یہی
جاگیے شب بھر یوں ہی اختر شماری کیجیے
نوچیے زخم جگر کو آنکھ بھر کر روئیے
اور کب تک ہجر میں یوں آہ و زاری کیجیے
بھیجئے کوئی بلاوا کوئی چٹھی بھیجئے
اپنے ان پردیسیوں سے شہر داری کیجیے
لوگ ہیں تیار ہجرت کے لیے اس شہر سے
پھر کوئی تازہ نیا فرمان جاری کیجیے
پھر کوئی تازہ بپا ہونے کو ہے اک معرکہ
نہر فرات کربلا کو پھر سے جاری کیجیے
کام آئے گا نہ کوئی مشکلوں میں دیکھنا
جس قدر بھی دوستوں سے وضع داری کیجیے
تشنۂ تکمیل ٹھہرے بات نہ کوئی نبیلؔ
گفتگو جتنی بھی ہے دل میں وہ ساری کیجیے
آئے گا کب سانس ورنہ دوسرا تجھ کو نبیلؔ
دل کے زخموں کی نہ ایسے پردہ داری کیجیے
غزل
دور کچھ اہل جنوں کی بے قراری کیجیے
نبیل احمد نبیل