EN हिंदी
دور کے ایک نظارے سے نکل کر آئی | شیح شیری
dur ke ek nazare se nikal kar aai

غزل

دور کے ایک نظارے سے نکل کر آئی

دلاور علی آزر

;

دور کے ایک نظارے سے نکل کر آئی
روشنی مجھ میں ستارے سے نکل کر آئی

جس نے کشتی کو ڈبویا سر و سامان سمیت
وہ گھنی موج کنارے سے نکل کر آئی

راکھ جھاڑی جو بدن کی تو اچانک باہر
آگ ہی آگ شرارے سے نکل کر آئی

پیڑ مبہوت ہوئے دیکھ کے اس منظر کو
دھوپ جب اس کے اشارے سے نکل کر آئی

آنکھ میں اشک ریاضت سے ہوا ہے پیدا
یہ نمی وقت کے دھارے سے نکل کر آئی

کون تکیہ کرے مہتاب کی اس روشنی پر
سامنے بھی جو سہارے سے نکل کر آئی

خود بھی حیران ہوں یہ سوچ کے آزرؔ اب تک
زندگی کیسے خسارے سے نکل کر آئی