دور ہے منزل تو کیا رستہ تو ہے
اک نظر اس نے مجھے دیکھا تو ہے
چاند ہاتھوں میں نہیں تو کیا ہوا
آسماں پر ہی سہی دکھتا تو ہے
خوش اگر غیروں میں ہے تو خوش رہے
وہ کہیں بھی ہو چلو اچھا تو ہے
کچھ نہیں ہے اور تو غم ہی سہی
اس بھری دنیا میں کچھ اپنا تو ہے
آج وہ یوں ہی نہیں مجھ سے خفا
کچھ گلہ تو ہے کوئی شکوا تو ہے
کیا بھروسہ اس کے وعدے کا مگر
دل کے خوش رکھنے کو اک وعدہ تو ہے
اس نے رکھا ہے تکلف کا بھرم
اب عداوت پر کوئی پردہ تو ہے
آ رہا ہے وہ بھی آخر راہ پر
سن کے میرا ذکر کچھ کہتا تو ہے
دل نہیں عازمؔ چلو جاں ہی سہی
خیر اس نے مجھ سے کچھ مانگا تو ہے
غزل
دور ہے منزل تو کیا رستہ تو ہے
عازم کوہلی