EN हिंदी
دور فضا میں ایک پرندہ کھویا ہوا اڑانوں میں | شیح شیری
dur faza mein ek parinda khoya hua uDanon mein

غزل

دور فضا میں ایک پرندہ کھویا ہوا اڑانوں میں

شمس فرخ آبادی

;

دور فضا میں ایک پرندہ کھویا ہوا اڑانوں میں
اس کو کیا معلوم زمیں پر چڑھے ہیں تیر کمانوں میں

پھول توڑ کے لوگ لے گئے اونچے بڑے مکانوں میں
اب ہم کانٹے سجا کے رکھیں مٹی کے گل دانوں میں

بے در و بام ٹھکانا جس میں دھول دھوپ سناٹا غم
وہی ہے مجھ وحشی کے گھر میں جو کچھ ہے ویرانوں میں

آپ کے قدموں کی آہٹ سے شاید خواب سے جاگ اٹھے
سوئی ہوئی ویران اداسی کمروں میں دالانوں میں

رنج و الم تنہائی کے ساتھی گزر بسر کو کافی ہیں
خوشی تو شامل ہو جاتی ہے آئے گئے مہمانوں میں

ارماں سجے سجے پلکوں پر تار تار تھی اپنی جیب
اپنے لیے تو زخم دل تھے بازار اور دکانوں میں

وقت نے کیسا روپ دیا جو لوگ نہیں پہچان سکے
کاش کہ خود کو دیکھ بھی سکتے جگ کے آئینہ خانوں میں

ذکر شمسؔ اداس کرے گا چھوڑو اور کوئی بات کرو
ایسے شخص کی کیوں تم گنتی گنتے ہو انسانوں میں