دور بیٹھا ہوا تنہا سب سے
جانے کیا سوچ رہا ہوں کب سے
اپنی تائید بھی دشوار ہوئی
آئنہ ٹوٹ گیا ہے جب سے
گھر سے نکلوں تو منا کر لاؤں
وہ تبسم جو خفا ہے لب سے
میرے الفاظ وہی ہیں لیکن
میرا مفہوم جدا ہے سب سے
جب سے آزاد کیا ہے اس نے
ہر نفس ایک سزا ہے تب سے
غزل
دور بیٹھا ہوا تنہا سب سے
امیر قزلباش