EN हिंदी
دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی | شیح شیری
dur-andesh marizon ki ye aadat dekhi

غزل

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی

جوشؔ ملیح آبادی

;

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی
ہر طرف دیکھ لیا جب تری صورت دیکھی

آئے اور اک نگۂ خاص سے پھر دیکھ گئے
جبکہ آتے ہوئے بیمار میں طاقت دیکھی

قوتیں ضبط کی ہر چند سنبھالے تھیں مجھے
پھر بھی ڈرتے ہوئے میں نے تری صورت دیکھی

محفل حشر میں یہ کون ہے میر مجلس
یہ تو ہم نے کوئی دیکھی ہوئی صورت دیکھی

سب یہ کہتے ہیں اسے اب کوئی آزار نہیں
کیوں ستم گار مرے ضبط کی قوت دیکھی

سونے والوں پہ نہ چمکا کبھی نور سحری
رونے والوں ہی کے چہروں پہ صباحت دیکھی

اس قدر یاس بھی ہوتی ہے کہیں دنیا میں
رو دیے ہم جو تری چشم عنایت دیکھی

مجھ کو تعلیم سے فرصت ہی کہاں اے شبیرؔ
کہہ لیا شعر کوئی جب کبھی فرصت دیکھی