EN हिंदी
دودمان درد کی شادی ہیں ہم | شیح شیری
dudman-e-dard ki shadi hain hum

غزل

دودمان درد کی شادی ہیں ہم

ماتم فضل محمد

;

دودمان درد کی شادی ہیں ہم
خاندان غم کی آبادی ہیں ہم

اپنی شومی سے ہوئی شادی غمی
شاید آبادی کی بربادی ہیں ہم

اپنے آب چشم سے سرسبز ہیں
زیب دشت و زینت وادی ہیں ہم

درمیان زندگی و مرگ ہیں
قابل صید و نہ صیادی ہیں ہم

زخم ہائے ہجر میں کیا کیا سہے
کشتگان تیغ فولادی ہیں ہم

بندۂ پیریم یارب از عذاب
مورد الطاف آزادی ہیں ہم

ہم نہیں کہتے مقلد ہیں ترے
تیرے در کے کلب قلادی ہیں ہم

داد کر اے داد گر عشاق کش
تیرے آگے تجھ سے فریادی ہیں ہم

خوں بہا معشوق سے لیتے نہیں
عاشق انصاف بیدادی ہیں ہم

دختر رز کو کوئی ہم سے کہے
تیرے تو حق دار دامادی ہیں ہم

ہم گنہ گار جناب عشق ہیں
عبد عبادی نہ اورادی ہیں ہم

اے عزیزاں ترک عشق حسن میں
سنگ پر جوں نقش بہزادی ہیں ہم

لا ولد کہتے ہیں ہم کو لا ولد
شعر سے از بس کہ اولادی ہیں ہم

عاقبت خاکی ہیں خاکی ہوں گے نے
آتشی و آہی و بادی ہیں ہم

فتح باغی نے نصر پوری ہیں بلکہ
سندھ میں بھی حیدرآبادی ہیں ہم

کیا کہیں کیا تھے کہاں سے آئے ہیں
مثل مضمون نو ایرادی ہیں ہم

پھر بھی وہ ایراد کرنے سکتا ہے
جس کے اول بار ایجادی ہیں ہم

مست احمد سے ماتمؔ ہیں شکر*
نے نمودی قوم نے عادی ہیں ہم