ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں
پھر بلاتی ہیں کسی کو بادبانی کشتیاں
اک عجب سیلاب سا دل کے نہاں خانے میں تھا
ریت ساحل دور تک پانی ہی پانی کشتیاں
موج دریا نے کہا کیا ساحلوں سے کیا ملا
کہہ گئیں کل رات سب اپنی کہانی کشتیاں
خامشی سے ڈوبنے والے ہمیں کیا دے گئے
ایک انجانے سفر کی کچھ نشانی کشتیاں
ایک دن ایسا بھی آیا حلقۂ گرداب میں
کسمسا کر رہ گئیں خوابوں کی دھانی کشتیاں
آج بھی اشکوں کے اس گہرے سمندر میں شمیمؔ
تیرتی پھرتی ہیں یادوں کی پرانی کشتیاں

غزل
ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں
شمیم فاروقی