EN हिंदी
ڈوبتا درد کا سورج ترے اظہار میں تھا | شیح شیری
Dubta dard ka suraj tere izhaar mein tha

غزل

ڈوبتا درد کا سورج ترے اظہار میں تھا

منیر فاطمی

;

ڈوبتا درد کا سورج ترے اظہار میں تھا
ڈھونڈنے والا تجھے ذات کے انبار میں تھا

آج تنہا ہوں میں اخلاص کے اس جنگل میں
ایسے آہو کی طرح ہو کہ کبھی ڈار میں تھا

تیشۂ یاد میں اب کھود رہا ہوں اس کو
جو کبھی دفن مرے ذہن کی دیوار میں تھا

دوپہر عمر کی سائے میں مری جس کے ڈھلی
وہ گھنا پیڑ بھی اس شہر کے اشجار میں تھا

یوں تو سب لوگ تھے اس شور شرابے میں مگن
کوئی اپنا نہ مگر اس بھرے بازار میں تھا

آج تم صاحب عزت ہو تو انکار نہیں
نام میرا بھی کبھی سرخیٔ اخبار میں تھا

سوچتا ہوں تو لرز اٹھتا ہے احساس انا
دائرہ بن کے بھی میں وقت کی پرکار میں تھا