EN हिंदी
ڈوبنے والے بھی تنہا تھے تنہا دیکھنے والے تھے | شیح شیری
Dubne wale bhi tanha the tanha dekhne wale the

غزل

ڈوبنے والے بھی تنہا تھے تنہا دیکھنے والے تھے

سلیم کوثر

;

ڈوبنے والے بھی تنہا تھے تنہا دیکھنے والے تھے
جیسے اب کے چڑھے ہوئے تھے دریا دیکھنے والے تھے

آج تو شام ہی سے آنکھوں میں نیند نے خیمے گاڑ دیئے
ہم تو دن نکلے تک تیرا رستہ دیکھنے والے تھے

اک دستک کی رم جھم نے اندیشوں کے در کھول دیئے
رات اگر ہم سو جاتے تو سپنا دیکھنے والے تھے

ایک سوار کی سج دھج کو رستوں کی وحشت نگل گئی
ورنہ اس تہوار پہ ہم بھی میلہ دیکھنے والے تھے

میں نے جس صف کو چھوڑا ہے اس میں شامل سارے لوگ
اپنے قد کو بھول کے اپنا سایا دیکھنے والے تھے

میں پانی اور آگ سے اک مٹی کی خاطر لوٹا تھا
اور یہ دونوں عالم کھیل تماشا دیکھنے والے تھے

اب آئینہ حیرت سے اک اک کا منہ تکتا ہے سلیمؔ
پہلے لوگ تو آئینے میں چہرہ دیکھنے والے تھے