EN हिंदी
ڈوبنے والا ہی تھا ساحل بر آمد کر لیا | شیح شیری
Dubne wala hi tha sahil baramad kar liya

غزل

ڈوبنے والا ہی تھا ساحل بر آمد کر لیا

نعمان شوق

;

ڈوبنے والا ہی تھا ساحل بر آمد کر لیا
اس نے بالآخر ہمارا دل بر آمد کر لیا

وہ بدن کی بھیک دینے پر ہوا راضی تو میں
اپنی خوشحالی میں اک سائل بر آمد کر لیا

ہم تلاش حق میں نکلے اور شرمندہ ہوئے
اس نے آئینے سے بھی باطل بر آمد کر لیا

عشق کے منکر تھے ہم تو یہ جہاں ناپید تھا
جب ہوئے اثبات پر مائل بر آمد کر لیا

آگ کے دریا میں کر کے رقص جب ہم تھک گئے
راکھ کے اک ڈھیر سے ساحل بر آمد کر لیا

کون کہتا ہے کہ ہم معصوم بزدل لوگ ہیں
اس نے تو ہر گھر سے اک قاتل بر آمد کر لیا