ڈوبنے والا ہی تھا ساحل بر آمد کر لیا
اس نے بالآخر ہمارا دل بر آمد کر لیا
وہ بدن کی بھیک دینے پر ہوا راضی تو میں
اپنی خوشحالی میں اک سائل بر آمد کر لیا
ہم تلاش حق میں نکلے اور شرمندہ ہوئے
اس نے آئینے سے بھی باطل بر آمد کر لیا
عشق کے منکر تھے ہم تو یہ جہاں ناپید تھا
جب ہوئے اثبات پر مائل بر آمد کر لیا
آگ کے دریا میں کر کے رقص جب ہم تھک گئے
راکھ کے اک ڈھیر سے ساحل بر آمد کر لیا
کون کہتا ہے کہ ہم معصوم بزدل لوگ ہیں
اس نے تو ہر گھر سے اک قاتل بر آمد کر لیا
غزل
ڈوبنے والا ہی تھا ساحل بر آمد کر لیا
نعمان شوق