ڈوبا ہوں تو کس شخص کا چہرہ نہیں اترا
میں درد کے قلزم میں بھی تنہا نہیں اترا
زنجیر نفس لکھتی رہی درد کی آیات
اک پل کو مگر سکھ کا صحیفہ نہیں اترا
انسان معلق ہیں خلاؤں کے بھنور میں
اشجار سے لگتا ہے کہ دریا نہیں اترا
سنتے ہیں کہ اس پیڑ سے ٹھنڈک ہی ملے گی
شاخوں کے دریچوں سے تو جھونکا نہیں اترا
پتھرائی ہوئی آنکھوں پہ حیراں نہ ہو اتنا
اس شہر میں کوئی بھی تو زندہ نہیں اترا
صحرائے بدن کو تھی طلب سائے کی لیکن
اک شخص بھی معیار پہ پورا نہیں اترا
سورج کی طلب میں کئی نذرانے دئے ہیں
گھر کے در و دیوار سے سایہ نہیں اترا
غزل
ڈوبا ہوں تو کس شخص کا چہرہ نہیں اترا
طارق جامی