ڈوب کر پار اتر گئے ہیں ہم
لوگ سمجھے کہ مر گئے ہیں ہم
اے غم دہر تیرا کیا ہوگا
یہ اگر سچ ہے مر گئے ہیں ہم
خیر مقدم کیا حوادث نے
زندگی میں جدھر گئے ہیں ہم
یا بگڑ کر اجڑ گئے ہیں لوگ
یا بگڑ کر سنور گئے ہیں ہم
موت کو منہ دکھائیں کیا یا رب
زندگی ہی میں مر گئے ہیں ہم
ہائے کیا شے ہے نشۂ مے بھی
فرش سے عرش پر گئے ہیں ہم
آرزوؤں کی آگ میں جل کر
اور بھی کچھ نکھر گئے ہیں ہم
جب بھی ہم کو کیا گیا محبوس
مثل نکہت بکھر گئے ہیں ہم
شادمانی کے رنگ محلوں میں
شادؔ با چشم تر گئے ہیں ہم
غزل
ڈوب کر پار اتر گئے ہیں ہم
نریش کمار شاد