ڈوب کر خود میں کبھی یوں بے کراں ہو جاؤں گا
ایک دن میں بھی زمیں پر آسماں ہو جاؤں گا
ریزہ ریزہ ڈھلتا جاتا ہوں میں حرف و صوت میں
رفتہ رفتہ اک نہ اک دن میں بیاں ہو جاؤں گا
تم بلاؤ گے تو آئے گی صدائے بازگشت
وہ بھی دن آئے گا جب سونا مکاں ہو جاؤں گا
تم ہٹا لو اپنے احسانات کی پرچھائیاں
مجھ کو جینا ہے تو اپنا سائباں ہو جاؤں گا
یہ سلگتا جسم ڈھل جائے گا جب برفاب میں
میں بدلتے موسموں کی داستاں ہو جاؤں گا
منتظر صدیوں سے ہوں آزادؔ اس لمحے کا جب
روز روشن کی طرح خود پر عیاں ہو جاؤں گا
غزل
ڈوب کر خود میں کبھی یوں بے کراں ہو جاؤں گا
آزاد گلاٹی