EN हिंदी
ڈوب کر اس کا بھنور کھولیں گے | شیح شیری
Dub kar is ka bhanwar kholenge

غزل

ڈوب کر اس کا بھنور کھولیں گے

مرلی دھر شرما طالب

;

ڈوب کر اس کا بھنور کھولیں گے
بحر ہستی کے گہر کھولیں گے

پا بہ جولاں نہیں ہوتی ہمت
آب جو اپنی ڈگر کھولیں گے

لاکھ دیواریں اٹھیں زنداں میں
ہم دریچہ تو مگر کھولیں گے

روشنی چار طرف پھیلے گی
آج وہ آنکھ جدھر کھولیں گے

سب ستارے کھڑے ہیں صف باندھے
آج لگتا ہے وہ در کھولیں گے

ان فرشتوں کو ملیں گے اشعار
جب وہ سامان سفر کھولیں گے

آج وہ تیر لیے بیٹھے ہیں
ہم بھی ہرگز نہ سپر کھولیں گے

شعر طالبؔ کے سنیں گے جب بھی
عقدۂ عرض ہنر کھولیں گے