EN हिंदी
دشمن جاں کئی قبیلے ہوئے | شیح شیری
dushman-e-jaan kai qabile hue

غزل

دشمن جاں کئی قبیلے ہوئے

نوشی گیلانی

;

دشمن جاں کئی قبیلے ہوئے
پھر بھی خوشبو کے ہاتھ پیلے ہوئے

بدگمانی کے سرد موسم میں
میری گڑیا کے ہاتھ نیلے ہوئے

جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی
تب کہیں بارشوں کے حیلے ہوئے

وقت نے خاک وہ اڑائی ہے
شہر آباد تھے جو ٹیلے ہوئے

جب پرندوں کی سانس رکنے لگی
تب ہواؤں کے کچھ وسیلے ہوئے

کوئی بارش تھی بدگمانی کی
سارے کاغذ ہی دل کے گیلے ہوئے