درون چشم ہر اک خواب مر رہا ہے بس
ہمارے پاس یہی آج کل بچا ہے بس
تری طلب تھی زمانہ تجھے زمانہ ملا
مری طلب تھی خدا سو مرا خدا ہے بس
اداس ہے نہ کسی سے ہوا ہے جھگڑا کوئی
بڑے دنوں سے یوں ہی دل دکھا ہوا ہے بس
جہاں پہ چاہو مرے ہاتھ کو جھٹک دینا
مجھے پتہ ہے تعلق یہ عام سا ہے بس
کھڑی ہوئی ہوں کنارے چناب کے سر شام
بھنور بھنور مری آنکھوں میں گھومتا ہے بس
کیا جو غور تو ہر سمت ناچتی تھی آگ
مجھے لگا تھا مرا گھر ہی جل رہا ہے بس
ہمارے پاس نہیں سعدیہؔ کوئی رستا
ہمارے پاس یہی ایک راستا ہے بس

غزل
درون چشم ہر اک خواب مر رہا ہے بس
سعدیہ صفدر سعدی