درست ہے کہ یہ دن رائیگاں نہیں گزرے
مگر سکوں سے تو اے جان جاں نہیں گزرے
مزاج شہر جنوں اب یہ برہمی کیسی
کس آگ سے ترے پیر و جواں نہیں گزرے
نظر سے دور سہی پھر بھی کشتگان وفا
وہاں سے کم تو یہ صدمے یہاں نہیں گزرے
مروتاً وہ مری بات پوچھ کر چپ ہیں
وگرنہ کب مرے شکوے گراں نہیں گزرے
سمندروں کی ہوا دور دور سے نہ گزر
وہاں کا حال سنا ہم جہاں نہیں گزرے
ہجوم کار جہاں ہو کہ دشت جاں کا سکوت
ترے فراق کے صدمے کہاں نہیں گزرے
گزر گئے وہ جو جاں سے مگر یہ حسرت ہے
کوئی صباؔ سے یہ کہہ دے میاں نہیں گزرے

غزل
درست ہے کہ یہ دن رائیگاں نہیں گزرے
صبیحہ صبا