دنیا سے ہوئے بیٹھے ہو روپوش اے جانا
جلوہ بھی سر عام ہے پرجوش اے جانا
دن دشت میں اچھے سے گزر جاتا ہے اکثر
جب آتا ہے یاد عالم آغوش اے جانا
یہ لوگ شب ہجر بلکھتے تھے جو بے حد
محشر سے گزر آئے ہے خاموش اے جانا
کل رات تو تم بھی تھے ہمیں یاد بہ ترتیب
آج اٹھے ہیں خود سے ہی فراموش اے جانا
چھلتے تھے بدن جن کے ہواؤں سے وہی گل
بلبل کے ہیں سب قتل پہ خاموش اے جانا
کانٹوں سے بھرے ہیں در و دیوار و دریچے
اتنے کہ صبا بھی ہے لہو پوش اے جانا
غزل
دنیا سے ہوئے بیٹھے ہو روپوش اے جانا
عاطف خان