دنیا سبھی باطل کی طلب گار لگے ہے
جس روح کو دیکھو وہی بیمار لگے ہے
جب بھوک سے مر جاتا ہے دوراہے پہ کوئی
بستی کا ہر اک شخص گنہ گار لگے ہے
شاید نئی تہذیب کی معراج یہی ہے
حق گو ہی زمانے میں خطا کار لگے ہے
وہ تیری وفا کی ہو کہ دنیا کی جفا کی
مت چھیڑ کوئی بات کہ تلوار لگے ہے
کیا ظرف ہے ہر ظلم پہ خاموش ہے دنیا
اس دور کا انسان پر اسرار لگے ہے
جس نے کبھی دریا کا تلاطم نہیں دیکھا
ساحل بھی اسے دور سے منجھدار لگے ہے
غزل
دنیا سبھی باطل کی طلب گار لگے ہے
احمد شاہد خاں