دنیا میں دل لگا کے بہت سوچتے رہے
کانٹوں کو گدگدا کے بہت سوچتے رہے
کل صبح ایک شاخ یہ دو ادھ کھلا گلاب
تھوڑا سا مسکرا کے بہت سوچتے رہے
کیا جانے چاندنی نے ستاروں سے کیا کہا
شب بھر وہ سر جھکا کے بہت سوچتے رہے
ٹوٹا کہیں جو شاخ سے غنچہ تو ہم وہیں
پہلو میں دل دبا کے بہت سوچتے رہے
کیا جانے کس لئے وہ نظر کے سوال پر
ہم سے نظر بچا کے بہت سوچتے رہے
اتنا تو یاد ہے کہ محبت کے ذکر پر
ہونٹوں کو وہ دبا کے بہت سوچتے رہے
ہاتھوں سے گر کے چور ہوا جام جب کنولؔ
ٹکڑے اٹھا اٹھا کے بہت سوچتے رہے
غزل
دنیا میں دل لگا کے بہت سوچتے رہے
ڈی ۔ راج کنول