دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا
آنکھوں میں گھر کے خواب کا نقشہ ہی رہ گیا
اس کے بدن کا لوچ تھا دریا کی موج میں
ساحل سے میں بہاؤ کو تکتا ہی رہ گیا
دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا
وہ اپنا عکس بھول کے جانے لگا تو میں
آواز دے کے اس کو بلاتا ہی رہ گیا
ہم راہ اس کے ساری بہاریں چلی گئیں
میری زباں پہ پھول کا چرچا ہی رہ گیا
کچھ اس ادا سے آ کے ملا ہم سے اشکؔ وہ
آنکھوں میں جذب ہو کے سراپا ہی رہ گیا
غزل
دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا
ابراہیم اشکؔ