EN हिंदी
دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا | شیح شیری
duniya luTi to dur se takta hi rah gaya

غزل

دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا

ابراہیم اشکؔ

;

دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا
آنکھوں میں گھر کے خواب کا نقشہ ہی رہ گیا

اس کے بدن کا لوچ تھا دریا کی موج میں
ساحل سے میں بہاؤ کو تکتا ہی رہ گیا

دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا

وہ اپنا عکس بھول کے جانے لگا تو میں
آواز دے کے اس کو بلاتا ہی رہ گیا

ہم راہ اس کے ساری بہاریں چلی گئیں
میری زباں پہ پھول کا چرچا ہی رہ گیا

کچھ اس ادا سے آ کے ملا ہم سے اشکؔ وہ
آنکھوں میں جذب ہو کے سراپا ہی رہ گیا