EN हिंदी
دنیا کو روشناس حقیقت نہ کر سکے | شیح شیری
duniya ko ru-shanas-e-haqiqat na kar sake

غزل

دنیا کو روشناس حقیقت نہ کر سکے

حبیب احمد صدیقی

;

دنیا کو روشناس حقیقت نہ کر سکے
ہم جتنا چاہتے تھے محبت نہ کر سکے

سامان گل فروشیٔ راحت نہ کر سکے
راحت کو ہم شریک محبت نہ کر سکے

یوں کثرت جمال نے لوٹی متاع دید
تسکین تشنہ کامئ حیرت نہ کر سکے

اب عشق خام کار ہی ارماں کو دے جواب
ہم ان کو بیقرار محبت نہ کر سکے

بے مہریوں سے کام رہا گو تمام عمر
بے مہریوں کو سہنے کی عادت نہ کر سکے

کچھ ایسی التفات نما تھی نگاہ دوست
ہوتے رہے تباہ شکایت نہ کر سکے

ناکامیاں تو فرض ادا اپنا کر گئیں
ہم ہیں کہ اعتراف ہزیمت نہ کر سکے

فخر مناسبت میں ترا نام لے لیا
ہم خود ہی پردہ دارئ الفت نہ کر سکے

ہر چند حال دیدہ و دل ہم کہا کئے
تشریح کیفیات محبت نہ کر سکے

افلاک پر تو ہم نے بنائیں ہزارہا
تعمیر کوئی دہر میں جنت نہ کر سکے

ہمسائیگئ زاہد بد خو کے خوف سے
پروردگار تیری عبادت نہ کر سکے