دنیا کو دیکھیے ذرا آنکھیں تو کھولیے
سورج چڑھا ہے سر پہ بڑی دیر سو لیے
ساری مسرتیں تری خوشیوں پہ وار دیں
جتنے بھی غم ملے ترے غم میں سمو لیے
ہم کو نہ جانے کیا ہوا پھولوں کو دیکھ کر
ہاتھوں میں ہم نے جان کے کانٹے چبھو لیے
مجبوریاں کہیں کہ اسے سادگی کہیں
جس نے بھی ہنس کے بات کی ہم ساتھ ہو لیے
روئے خطاب ہے کسی نازک مزاج سے
چہرے پہ حال لکھیے نگاہوں سے بولئے
سیپی کھلی رہے گی جو موتی نکل گئے
آنکھوں کی سیپیوں سے جواہر نہ رولیے
تازہ رکھا ہے ذہن میں کرب شکستگی
جب کچھ نہ بن پڑا تو کہیں چھپ کے رو لیے
غزل
دنیا کو دیکھیے ذرا آنکھیں تو کھولیے
مرتضیٰ برلاس