دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
یہ منت آرزو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
گو شام سے سحر تک روئے ہے اور جلے ہے
یہ شمع دو بدو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
بہتیری غائبانہ کرتے رہیں شکایت
پر اس کے رو بہ رو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
مے خانۂ جہاں میں گزران شیخ صاحب
بے جام و بے سبو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
کیا پوچھتا ہے ؔجوشش تعریف اس دہن کی
کچھ اس میں گفتگو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
غزل
دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
جوشش عظیم آبادی