EN हिंदी
دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی | شیح شیری
duniya ki justuju to humse na ho sakegi

غزل

دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی

جوشش عظیم آبادی

;

دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
یہ منت آرزو تو ہم سے نہ ہو سکے گی

گو شام سے سحر تک روئے ہے اور جلے ہے
یہ شمع دو بدو تو ہم سے نہ ہو سکے گی

بہتیری غائبانہ کرتے رہیں شکایت
پر اس کے رو بہ رو تو ہم سے نہ ہو سکے گی

مے خانۂ جہاں میں گزران شیخ صاحب
بے جام و بے سبو تو ہم سے نہ ہو سکے گی

کیا پوچھتا ہے ؔجوشش تعریف اس دہن کی
کچھ اس میں گفتگو تو ہم سے نہ ہو سکے گی