دنیا کے کچھ نہ کچھ تو طلب گار سے رہے
ہم اپنی ہی نظر میں خطا کار سے رہے
اک مرحلہ تھا ختم ہوا دشت خواب کا
پھر عمر بھر جہاں رہے بیزار سے رہے
جرأت کسی نے وادئ وحشت کی پھر نہ کی
ہم خستہ حال آہنی دیوار سے رہے
اک عکس ہے جو ساتھ نہیں چھوڑتا کبھی
ہم تا حیات آئنہ بردار سے رہے
ہر صبح اپنے گھر میں اسی وقت جاگنا
آزاد لوگ بھی تو گرفتار سے رہے
کار عظیم کب کوئی قدرت میں تھا سہیلؔ
ہم بس افق پہ صبح کے آثار سے رہے
غزل
دنیا کے کچھ نہ کچھ تو طلب گار سے رہے
سہیل احمد زیدی