EN हिंदी
دنیا کے کچھ نہ کچھ تو طلب گار سے رہے | شیح شیری
duniya ke kuchh na kuchh to talabgar se rahe

غزل

دنیا کے کچھ نہ کچھ تو طلب گار سے رہے

سہیل احمد زیدی

;

دنیا کے کچھ نہ کچھ تو طلب گار سے رہے
ہم اپنی ہی نظر میں خطا کار سے رہے

اک مرحلہ تھا ختم ہوا دشت خواب کا
پھر عمر بھر جہاں رہے بیزار سے رہے

جرأت کسی نے وادئ وحشت کی پھر نہ کی
ہم خستہ حال آہنی دیوار سے رہے

اک عکس ہے جو ساتھ نہیں چھوڑتا کبھی
ہم تا حیات آئنہ بردار سے رہے

ہر صبح اپنے گھر میں اسی وقت جاگنا
آزاد لوگ بھی تو گرفتار سے رہے

کار عظیم کب کوئی قدرت میں تھا سہیلؔ
ہم بس افق پہ صبح کے آثار سے رہے