دنیا کہیں جو بنتی ہے مٹتی ضرور ہے
پردے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ضرور ہے
جاتے ہیں لوگ جا کے پھر آتے نہیں کبھی
دیوار کے ادھر کوئی بستی ضرور ہے
ممکن نہیں کہ درد محبت عیاں نہ ہو
کھلتی ہے جب کلی تو مہکتی ضرور ہے
یہ جانتے ہوئے کہ پگھلنا ہے رات بھر
یہ شمع کا جگر ہے کہ جلتی ضرور ہے
ناگن ہی جانئے اسے دنیا ہے جس کا نام
لاکھ آستیں میں پالئے ڈستی ضرور ہے
جاں دے کے بھی خریدو تو دنیا نہ آئے ہاتھ
یہ مشت خاک کہنے کو سستی ضرور ہے
غزل
دنیا کہیں جو بنتی ہے مٹتی ضرور ہے
نوشاد علی