EN हिंदी
دنیا ہے اک نگار فریبندہ جلوہ گر | شیح شیری
duniya hai ek nigar-e-farebanda jalwa-gar

غزل

دنیا ہے اک نگار فریبندہ جلوہ گر

نظیر اکبرآبادی

;

دنیا ہے اک نگار فریبندہ جلوہ گر
الفت میں اس کی کچھ نہیں جز کلفت و ضرر

آج اس پہ تھی کمیں تو لگائی کل اس پہ گھات
حسرت فزا و ہوش ربا و شکیب بر

ہوتا ہے آخر اس کے گرفتار کا یہ حال
جیسے مگس کے شہد میں بھر جاویں بال و پر

سحر و فسوں وہ رکھتے ہے بہر فریب دل
حیراں ہو سحر سامری بھی جس کو دیکھ کر

لینے کو نقد‌ عمر کے شیریں ہے مثل قند
جب لے چکے تو ہوتی ہے حنظل سے تلخ تر

جو اس سے دل لگاتے ہیں آخر ہو منفعل
ملتے ہیں اپنے دست تأسف بہ یک دگر

تو بھی جو اس کے پاس لگا دے گا دل تو یار
اس نخل سے ملے گا تجھے بھی یہی ثمر

میں تجھ کو اس کے ربط سے کرتا نہ منع آہ
لیکن کروں میں کیا تجھے در پیش ہے سفر

تو اس مثل کو سوچ ذرا گر سفر‌ گزیں
کرتا ہے قطع راہ کو باندھے ہوئے کمر

گر درمیان رہ کوئی مل جائے باغ اسے
تو چلتے چلتے دیکھتا جاتا ہے اک نظر

بس اس نگار خانے کو تو بھی اسی نمط
سیر مسافرانہ کر اور اس سے درگزر

اس حرف کو نظیرؔ کے یوں دل میں دے مکاں
کرتا ہے جیسے نقش نگیں کے جگر میں گھر