دنیائے ستم زیر و زبر ہو کے رہے گی
جب رات ہوئی ہے تو سحر ہو کے رہے گی
تلوار سے جاگے کہ نسیم سحری سے
ہشیار مگر روح بشر ہو کے رہے گی
بن جائیں گے گل راہ میں بکھرے ہوئے کانٹے
ہمت ہے تو تکمیل سفر ہو کے رہے گی
یہ حسن تصور مجھے مرنے نہیں دیتا
اک دن مری جانب وہ نظر ہو کے رہے گی
تم خون تمنا کو مرے لاکھ چھپاؤ
اک روز زمانے کو خبر ہو کے رہے گی
یہ بات الگ ہے کہ سحر تک نہ رہیں ہم
لیکن یہ یقیں ہے کہ سحر ہو کے رہے گی
شاربؔ میں چھپوں لاکھ زمانے کی نظر سے
لیکن خبر عیب و ہنر ہو کے رہے گی
غزل
دنیائے ستم زیر و زبر ہو کے رہے گی
شارب لکھنوی