دنیائے غم کو زیر و زبر کر سکے تو کر
رحمت کی مجھ پہ ایک نظر کر سکے تو کر
اے دل تو ایسی آہ اگر کر سکے تو کر
دنیا ادھر کی آج ادھر کر سکے تو کر
اے آہ برق ریز تجھے روکتا ہے کون
اس بے خبر کو میری خبر کر سکے تو کر
مشہور ہے کہ عشق کی راہیں ہیں خوفناک
ہمت سے پہلے پوچھ سفر کر سکے تو کر
عارض ہیں تیرے زلفیں بھی تیری کسی سے کیا
اک جا پہ جمع شام و سحر کر سکے تو کر
ناداں حدیث عشق کے معنی کچھ اور ہیں
قابو میں دل کو اپنے اگر کر سکے تو کر
اے آہ تو ہی حوصلہ اپنا نکال لے
اس سنگ دل کے دل پہ اثر کر سکے تو کر
عالمؔ جہان عشق کہ دشواریاں نہ پوچھ
دل کو جو راز دار جگر کر سکے تو کر
غزل
دنیائے غم کو زیر و زبر کر سکے تو کر
میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی