دنیائے دنی ہے مطلب کی سب رشتے ناطے توڑ دیے
اب خود پہ بھروسہ کرنا ہے جتنے تھے سہارے چھوڑ دیے
اب دل سے دل کا ملنا کیا بس ہاتھ ملانا کافی ہے
دیرینہ طور طریقوں نے چلتے چلتے دم توڑ دیے
دنیائے محبت کے اندر نفرت کا اندھیرا جن سے بڑھے
اس دور ترقی کے ایسے جتنے ہیں اٹھا کر توڑ دیے
جو آندھیوں سے ٹکرا بھی سکیں ظلمت کا فسوں بھی توڑ سکیں
طاقوں میں سجا کر پہلے ہی تو کچھ ایسے رکھ چھوڑ دیے
کیا ملنا جلنا آپس میں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
ہم دیکھ چکے اس دور نے تو دل توڑ دیے سر جوڑ دیے
جب ظلم کے طوفاں امڑے ہیں جب یاس کے بادل چھائے ہیں
دنیا کو دیا ہے عزم جواں تاریخ کو ہم نے موڑ دیے
اے دور سیاست عہد زبوں جرارؔ سے یہ امید نہ رکھ
اس در پہ جھکا دی پیشانی ہاتھ اس کے آگے جوڑ دیے

غزل
دنیائے دنی ہے مطلب کی سب رشتے ناطے توڑ دیے
جرار چھولسی