دنیا بھی عجب حسین زن ہے
اس سن پہ بنی ہوئی دلہن ہے
گیسوۓ صنم کا دل پہ ہے دانت
اس سانپ کا کاٹنے پہ من ہے
گرمی میں نہیں ہے شوخیٔ چشم
یہ دھوپ سے کالا ہرن ہے
ہر گام کرے جو حشر برپا
وہ حشر خرام بد چلن ہے
تابوت میں ہے عروس میت
دولہا کے کنار میں دلہن ہے
جنگل سے علاقہ ہے ہمیں شادؔ
جاگیر میں وحشیوں کی بن ہے
غزل
دنیا بھی عجب حسین زن ہے
شاد لکھنوی