EN हिंदी
دنیا اپنی موت جلد از جلد مر جانے کو ہے | شیح شیری
duniya apni maut jald-az-jald mar jaane ko hai

غزل

دنیا اپنی موت جلد از جلد مر جانے کو ہے

شہزاد انجم برہانی

;

دنیا اپنی موت جلد از جلد مر جانے کو ہے
اب یہ ڈھانچہ ایسا لگتا ہے بکھر جانے کو ہے

عین اس دم نیشتر لے آتی ہیں یادیں تری
زخم تنہائی کا لگتا ہے کہ بھر جانے کو ہے

جانے والے اور کچھ دن سوگ کرنا ہے ترا
ذہن و دل سے پھر یہ نشہ بھی اتر جانے کو ہے

وقت رخصت بد گمانی تیری ایسا گھاؤ تھی
رفتہ رفتہ اب جو اپنا کام کر جانے کو ہے

ہم حقیقت آشنا لوگوں سے کم ملتے ہیں لوگ
ان کو سمجھاؤ یہ شیرازہ بکھر جانے کو ہے

رت ہوا بدلے گی سب گل شاخ پر مر جائیں گے
اب یہ موسم خوشبوؤں کا پر کتر جانے کو ہے