دنیا اپنی منزل پہنچی تم گھر میں بیزار پڑے
تم سے کس کو عشق ہوا ہے تم پہ خدا کی مار پڑے
دل کی باتوں میں آ جانا جیتے جی مر جانا ہے
ہم اس کے کہنے میں آئے کتنے دن بیمار پڑے
گل یا گلشن سے لڑ جانا کھیل ہے اپنی نظروں کا
ایسی گھڑی اللہ نہ لائے جب دل سے تکرار پڑے
گر نہ صدف سے باہر آتے اک دن موتی بن جاتے
کم ظرفی نے خوار کیا ہے ساحل پر ہو بار پڑے
ہجر کی مدت درد کے لمحے کیا کیا معنی رکھتے ہیں
یہ سب باتیں وہ دل جانے جس پر غم کا بار پڑے
دنیا تج کر عشق کے رستے آئے وہ بھی سہل پڑا
وجدؔ اب اس رستے پر جاؤ جو رستہ دشوار پڑے
غزل
دنیا اپنی منزل پہنچی تم گھر میں بیزار پڑے
وجد چغتائی