دکھ سینے میں کس طاقت ایذا نے بھرے ہیں
گھر سیکڑوں خالی ہوئے ویرانے بھرے ہیں
حیرت ہے کہ جو گردن قاتل پہ رہا ہے
اس خون سے خود ہاتھ مسیحا نے بھرے ہیں
پیاسوں کی تسلی کے لیے شور بہت ہے
کچھ کوزوں کے نقصان بھی دریا نے بھرے ہیں
خار و خس و خاشاک تصرف میں ہیں کس کے
یہ اپنے ہی دامن ہیں جو صحرا نے بھرے ہیں
کچھ دیر ہی گزری ہے جلے مشعل گل کو
یہ کیا کہ دھویں سے سبھی خس خانے بھرے ہیں
یونہی تو نہیں زندہ و بیدار یہ تصویر
ہر نقش میں رنگ اپنی تمنا نے بھرے ہیں
اک وسعت دل ہے غم امروز سے لبریز
جو گوشے تہی تھے غم فردا نے بھرے ہیں
کیوں الجھے ہو محشرؔ یہ توقع ہی غلط ہے
زخم غم دنیا کبھی دنیا نے بھرے ہیں
غزل
دکھ سینے میں کس طاقت ایذا نے بھرے ہیں
محشر بدایونی